ماهنامه دارالعلوم ، شماره 8 ، جلد: 94 شعبان - رمضان 1431 ھ مطابق اگست 2010 ء

حرفِ آغاز

مفت اور لازمی تعلیم

حبیب الرحمن اعظمی

 

سلطنت مغلیہ کے زوال کے بعد اقتدار کے ابوالہوسوں نے اپنے طورپر یہ باور کرلیا تھا کہ مغلیہ اقتدار کی طرح سرزمین ہند سے اسلام، تعلیمات اسلام اور مسلم تہذیب وثقافت کا بھی جنازہ نکل جائے گا، لیکن علمائے حق کی ایمانی فراست، اور روحانی فرزانگی نے اسلام اور تعلیمات اسلام کی سرمدی تحفظ وبقاء کیلئے سیاست نبویہ علی صاحبہا الصلاة والسلام سے ایک نسخہٴ کیمیا حاصل کرلیا، وہ ایسی دینی مدارس کا قیام تھا جو حکومت کے ہر ایک اقتدار، اور ارباب حکومت کے ہر ایک احسان سے آزاد رہ کر خالص مذہبی منہاج اور دستور العمل کے مطابق نونہالان ملت کی ساخت وپرداخت کریں۔

ایسے وقت میں جبکہ ہندوستان کا گرانبار تعلیمی نظام غریبوں پر اعلیٰ تعلیم کا دروازہ بند کردیاتھا، یہ مدارس ان درماندہ بچوں کو اپنی آغوش تربیت میں لے کر انہیں عالم دین اور زعمائے ملت بنارہے تھے، پورے اذعان ویقین کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اسلامی تہذیب ومعاشرت کے جو کچھ آثار آج ہندوستان میں نظر آرہے ہیں تو وہ انہیں مدارس کی برکت ہے، علم دین اور پابندیٴ شریعت کی وہ روشنی جو دیگر ممالک کو نصیب نہیں ہندوستان کو انہیں مدارس کے ذریعہ حاصل ہوئی ہے، اور جب تک ان مدارس کا نظام ہندوستان میں آزادانہ طورپر باقی ہے، اس روشنی کی ضیاء پاشیوں کو کوئی طاقت نقصان نہیں پہنچاسکتی ہے۔

اسلام کے حریفوں کے لئے دینی مدارس کا یہی کردار سوہانِ روح بنا ہوا ہے، اور وہ بجان ودل اس کے درپے ہیں کہ اسلامی تہذیب وثقافت کے ان میناروں کو ارضِ ہند سے کسی طرح نیست و نابود کردیں، چنانچہ ان مدارس کو قومی مجرم ٹھہرانے کی غرض سے ملک گیر پیمانہ پر یہ غوغا مچایاگیا کہ یہ اسلامی مکاتب مدارس دہشت گردی کی تربیت دیتے ہیں اور دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ ہیں، مدراس کے سر اس ناروا تہمت کو تھوپنے کی غرض سے سیکولر اور جمہوری سرکاروں کے اہل کار سرگرم عمل ہوگئے،مدارس کو پابند کیاگیا کہ اپنے طلبہ کی فہرست ماہ بماہ تیار کرکے سرکاری انتظامیہ کے دفاتر میں بھیجنے کا التزام کریں، خفیہ پولیس ان مدرسوں کے گرد چکر کاٹنے لگے، غرضیکہ اپنی جیسی ہر تدبیریں کی گئیں کہ کسی طرح ان کا رشتہ دہشت گردی سے جوڑ دیا جائے، مدارس کے اساتذہ، طلبہ اور انتظامیہ کو سراسمیہ کرنے اور مدارس سے لاتعلق ہوجانے کی ہر امکانی کوشش کی گئی، اپنی اس مہم میں یکسرناکام ہوجانے کے بعد، ”مرکزی مدرسہ بورڈ“ کا شوشہ چھوڑا گیا،اور انہیں مدارس پر جنہیں کل تک دہشت گردی کی تربیت گاہ بتایا جارہا ہے مدرسہ بورڈ کے عنوان سے دادودہش کا دروازہ کھول دیاگیا، لیکن مدارس نے ان سرکاری ٹکڑوں کے عوض اپنے دینی کردار کا سودا کرنے سے صاف انکار کردیا (الا ماشاء اللہ) تو اب ان مدارس کا قلع قمع کرنے کے لئے ”مفت اور لازمی تعلیم“ کے حق کا قانون جاری کیاگیا ہے۔ اس قانون کے تحت جو تصور پیش کیاگیا ہے وہ بظاہر بڑا خوش کن اور دل فریب ہے کیونکہ اس قانون کی رو سے چودہ سال سے کم عمر کے تمام بچوں کو تعلیم دلانے کی ذمہ داری خود حکومت نے لے لی ہے،اور ان کے والدین اور سرپرستوں کو اس اہم ترین فریضہ سے سبکدوش کردیا ہے، اس طرح وہ بچے بھی تعلیم یافتہ ہوجائیں گے جن کے سرپرست اپنی مالی زبوں حالی کی بناء پر انہیں تعلیم دلانے سے قاصر تھے۔

لیکن اس مفت اور لازمی تعلیم کے خوش رنگ، دل پسند پردے کے پیچھے جبری تعلیم کا تصور انگڑائیاں لے رہا ہے یعنی حکومت اس قانون کے تحت اپنی مرضی سے اپنی پسند کی تعلیم اپنے منتخب اساتذہ سے بچوں کو دلائے گی، یہ تعلیم کیسی ہوگی اور کیسے افراد کے ذریعہ دلائی جائیگی وہ ظاہر ہے، یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ آج ہمارے اس جمہوری اور سیکولر ملک میں سرکاری وغیرسرکاری ہر شعبہ زندگی میں ایک خاص تہذیب اور کلچر کا غلبہ ہے تو یہ ”مفت اور لازمی تعلیم“ اس غلبہ سے کیسے محفوظ رہ سکتی ہے، ابھی ماضی قریب میں ”وندے ماترم“ وغیرہ کا قضیہ اسی تہذیبی یلغار کا شاخسانہ تھا۔

اس پس منظر میں یہ قانون کسی حال میں بھی مسلمانوں کے لئے قابل قبول نہیں ہوگا۔ عقل و انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ جو تعلیمی ادارے پہلے ہی سے ملک کے آئین و قانون کے تحت مفت اور لازمی تعلیم بچوں کو دے رہے ہیں ان کی تحسین اور ہمت افزائی کی جاتی، لیکن اس کے برخلاف مفت اور لازمی تعلیم کے قانون کے بعض دفعات کے ذریعہ نہ صرف یہ کہ مکاتب، مدارس، یا پروائیوٹ تعلیم گاہوں کی خدمات کی یکسر نفی کردی گئی ہے بلکہ آیندہ ان کے وجود و بقاء پر بھی سوالیہ نشان لگادیاگیا ہے، جبکہ یہی وہ مکاتب ومدارس ہیں جوآزادیٴ ملک سے پہلے ہی مفت تعلیم کے نظام کو انتہائی خوش اسلوبی کے ساتھ چلا رہے ہیں انہیں مدارس کے ساختہ و پرداختہ آزاد ہند کے پہلے وزیر تعلیم تھے، برصغیر کی علمی و ثقافتی اور سیاسی تاریخ سے معمولی واقفیت رکھنے والا بھی جانتا ہے کہ سرسید احمد خاں، مولانا محمد قاسم، حضرت شیخ الہند، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا مفتی کفایت اللہ، شیخ الاسلام مولانا مدنی، حافظ محمد ابراہیم سابق کابینی وزیر، مولانا حفظ الرحمن وغیرہ انہیں مدارس کے پروردہ تھے، اور آج بھی یہ مدارس اپنے معیار تعلیم و تربیت کے اعتبار سے سرکاری کالجوں وغیرہ پر بدرجہا فوقیت رکھتے ہیں، اگر سرکاری اسکولوں کے سارٹیفکٹوں کی سرکاری اہمیت کی بجائے حقیقی قابلیت اور علمیت کو معیار قرار دے کر مقابلہ کرکے اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے، آج انہیں مدارس کو بعض داخلی وخارجی اثرات کے تحت مقفل کرنے کی اسکیمیں مرتب کی جارہی ہیں، اور حیرت تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ ”کانگریس پارٹی“ کی سرکردگی میں کیاجارہا ہے جس نے ایک بار نہیں بلکہ متعدد بار زعمائے ملت کو یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ مسلمانوں کی مذہبی تعلیم پر کسی قسم کی کوئی قدغن نہیں لگائی جائے گی۔ اس یقین دہانی کے تحت جب بھارت کے آئین کی وضع و ترتیب ہوئی تو ثقافتی اور تعلیمی حقوق کے تحت دفعہ ۳ (۱) میں صاف لفظوں میں اس بات کا اعلان کیاگیا کہ ”تمام اقلیتوں کو خواہ مذہب کی بناء پر ہوں یا زبان کی، اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور ان کا انتظام کرنے کا حق ہوگا۔

پھر اس بنیادی حق کے تحفظ کیلئے آئین کی دفعہ ۱۳ (۲) میں اس بات کا عہد کیاگیا کہ ”مملکت کوئی ایسا قانون نہ بنائے گی جو اس حصہ سے عطا کئے ہوئے حقوق کو چھین لے یا ان میں کمی کرے، اور کوئی قانون جو اس فقرہ کی خلاف ورزی میں بنایا جائے، خلاف ورزی کی حد تک باطل ہوگا“۔

ان تمام تر عہدوپیمان اور یقین دہانیوں کے باوجود خود کانگریس پارٹی کی زیرقیادت موجودہ حکومت اور کانگریسی وزیر کے ذریعہ آج مدارس کو ملک سے ختم کرنے کی تدبیریں کی جارہی ہیں، لیکن جب تک ”بھارت کا آئین“ باقی ہے اقلیتوں سے ان کے اس حق کو چھینا نہیں جاسکتا ہے اورجو گروہ، جماعت، پارٹی اور حکومت اس آئینی حق کو چھیننے کی کوشش کرے گی بلاشبہ اس کا یہ عمل، قانون و انصاف اور آئین بھارت کے خلاف ہوگا،اور اقلیتیں بالخصوص مسلم اقلیت کسی بھی ایسے فارمولے اور تجویز کو قبول نہیں کریں گی جن سے ان کا یہ بنیادی حق پامال ہوتا ہو۔

مشورے پھر بورہے ہیں اک نئی تنظیم کے

پھر چمن والوں کے ہاتھوں گلستاں خطرے میں ہے